Surah

Information

Surah # 114 | Verses: 6 | Ruku: 1 | Sajdah: 0 | Chronological # 21 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Early Makkah phase (610-618 AD)
مِنۡ شَرِّ الۡوَسۡوَاسِ  ۙ الۡخَـنَّاسِ ۙ‏ ﴿4﴾
وسوسہ ڈالنے والے پیچھے ہٹ جانے والے کے شر سے ۔
من شر الوسواس الخناس
From the evil of the retreating whisperer -
Waswasa dalney waly pechy hut janey waly kay shar say.
اس وسوسہ ڈالنے والے کے شر سے جو پیچھے کو چھپ جاتا ہے ۔ ( ٣ )
( ٤ ) اس کے شر سے جو دل میں برے خطرے ڈالے ( ف۵ ) اور دبک رہے ( ف٦ )
اس وسوسہ ڈالنے والے کے شر سے جو بار بار پلٹ کر آتا ہے ، 2
وسوسہ انداز ( شیطان ) کے شر سے جو ( اﷲ کے ذکر کے اثر سے ) پیچھے ہٹ کر چھپ جانے والا ہے
سورة الناس حاشیہ نمبر : 2 اصل میں وَسْوَاسِ ڏ الْخَنَّاسِ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ۔ وسو اس کے معنی ہیں بار بار وسوسہ ڈالنے والا ۔ اور وسوسے کے معنی ہیں پے در پے ایسے طریقے یا طریقوں سے کسی کے دل میں کوئی بری بات ڈالنا کہ جس کے دل میں وہ ڈالی جارہی ہو اسے یہ محسوس نہ ہوسکے کہ وسوسہ انداز اس کے دل میں ایک بری بات ڈال رہا ہے ۔ وسوسے کے لفظ میں کود تکرار کا مفہوم شامل ہے ، جیسے زلزلہ میں حرکت کی تکرار کا مفہوم شامل ہے ۔ چونکہ انسان صرف ایک دفعہ بہکانے سے نہیں بہکتا بلکہ اسے بہکانے کی پے در پے کوشش کرنی ہوتی ہے ، اس لیے ایسی کوشش کو وسوسہ اور کوشش کرنے والے کو وسو اس کہا جاتا ہے ۔ رہا لفظ خناس تو یہ خنوس سے ہے جس کے معنی ظاہر ہونے کے بعد چھپنے یا آنے کے بعد پیچھے ہٹ جانے کے ہیں ، اور خناس چونکہ مبالغہ کا صیغہ ہے اس لیے اس کے معنی یہ فعل بکثرت کرنے والے کے ہوئے ۔ اب یہ ظاہر بات ہے کہ وسوسہ ڈالنے والے کو بار بار وسوسہ اندازی کے لیے آدمی کے پاس آنا پڑتا ہے ، اور ساتھ ساتھ جب اسے خناس بھی کہا گیا تو دونوں الفاظ کے ملنے سے خودبخود یہ مفہوم پیدا ہوگیا کہ وسوسہ ڈال ڈال کر وہ پیچھے ہٹ جاتا ہے اور پھر پے در پے وسوسہ اندازی کے لیے پلٹ کر آتا ہے ۔ بالفاظ دیگر ایک مرتبہ وسوسہ اندازی کی کوشش جب ناکام ہوتی ہے تو وہ چلا جاتا ہے ، پھر وہی کوشش کرنے کے لیے دوبارہ ، سہ بارہ اور بار بار آتا رہتا ہے ۔ وسو اس الخناس کا مطلب سمجھ لینے کے بعد اب اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ اس کے شر سے پناہ مانگنے کا مطلب کیا ہے؟ اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ پناہ مانگنے والا خود اس کے شر سے خدا کی پناہ مانگتا ہے ، یعنی اس شر سے کہ وہ کہیں اس کے اپنے دل میں کوئی وسوسہ نہ ڈال دے ۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے راستے کی طرف دعوت دینے والے کے خلاف جو شخص بھی لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتا پھرے اس کے شر سے داعی حق خدا کی پناہ مانگتا ہے ۔ داعی الی الحق کے بس کا یہ کام نہیں ہے کہ اس کی ذات کے خلاف جن جن لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈالے جارہے ہوں ان سب تک خود پہنچے اور ایک ایک شخص کی غلط فہمیوں کو صاف کرے ۔ اس کے لیے یہ بھی مناسب نہیں ۃے کہ اپنی دعوت الی اللہ کا کام چھوڑ چھاڑ کر وسوسہ اندازوں کی پیدا کردہ غلط فہمیوں کو صاف کرنے اور ان کے الزامات کی جواب دہی کرنے میں لگ جائے ۔ اس کے مقام سے یہ بات بھی فروتر ہے کہ جس سطح پر اس کے مخالفین اترے ہوئے ہیں اسی پر خود بھی اتر آئے ۔ اس لیے اللہ تعالی نے دعوت حق دینے والے کو ہدایت فرمائی کہ ایسے اشرار کے شر سے بس خدا کی پناہ مانگ لے اور پھر بے فکری کے ساتھ اپنی دعوت کے کام میں لگا رہ ۔ اس کے بعد ان سے نمٹنا تیرا کام نہیں بلکہ رب الناس ، ملک الناس اور الہ الناس کا کام ہے ۔ اس مقام پر یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ وسوسہ عمل شر کا نقطہ آغاز ہے ۔ وہ جب ایک غافل یا خالی الذہن آدمی کے اندر اثر انداز ہوجاتا ہے تو پہلے اس میں برائی کی خواہش پیدا ہوتی ہے ۔ پھر مزید وسوسہ اندازی اس بری خواہش کو بری نیت اور برے ارادے میں تبدیل کردیتی ہے ۔ پھر اس سے آگے جب وسوسے کی تاثیر بڑھتی ہے تو ارادہ عزم بن جاتا ہے اور آخری قدم پر پھر عمل شر ہے ۔ اس لیے وسوسہ انداز کے شر سے خدا کی پناہ مانگنے کا مطلب یہ ہے کہ شر کا آغاز جس مقام سے ہوتا ہے اللہ تعالی اسی مقام پر اس کا قلع قمع فرمادے ۔ دوسرے لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو وسوسہ اندازوں کے شر کی ترتیب یہ نظر آتی ہے کہ پہلے وہ کھلے کھلے کفر ، شرک ، دہریت ، یا اللہ اور رسول سے بغاوت اور اللہ والوں کی عداوت پر اکساتے ہیں ۔ اس میں ناکامی ہو اور آدمی دین اللہ میں داخل ہی ہوجائے تو وہ اسے کسی نہ کسی بدعت کی راہ سمجھاتے ہیںَ یہ بھی نہ ہوسکے تو معصیت کی رغبت دلاتے ہیں ۔ اس میں بھی کامیابی نہ ہوسکے تو آدمی کے دل میں یہ خیال ڈالتے ہیں کہ چھوٹے چھوٹے گناہ کرلینے میں تو کوئی مضائقہ نہیں تاکہ یہی اگر کثرت سے صادر ہوجائیں تو گناہوں کا بار عظیم انسان پر لد جائے ۔ اس سے بھی اگر آدمی بچ نکلے تو بدرجہ آخر وہ کوشش کرتے ہیں کہ آدمی دین حق کو بس اپنے آپ تک ہی محدود رکھے ، اسے غالب کرنے کی فکر نہ کرے ، لیکن اگر کوئی شخس ان تمام چالوں کو ناکام کردے تو پھر شیاطین جن و انس کی پوری پارٹی ایسے آدمی پر پل پڑتی ہے ، اس کے خلاف لوگوں کو اکساتی اور بھڑکاتی ہے ، اس پر گالیوں اور الزامات کی بوجھاڑ کراتی ہے ، اسے ہر طرف بدنام اور رسوا کرنے کی کوشش کرتی ہے ۔ پھر شیطان اس مرد مومن کو آکر غصہ دلاتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ سب کچھ برداشت کرلینا تو بڑی بزدلی کی بات ہے ، اٹھ اور ان حملہ آوروں سے بھڑ جا ۔ یہ شیطان کا آخری حربہ ہے جس سے وہ دعوت حق کی رہ کھوٹی کرانے اور داعی حق کو راہ کے کانٹوں سے الجھا دینے کی کوشش کرتا ہے ۔ اس سے بھی اگر داعی حق بچ نکلے تو شیطان اس کے آگے بے بس ہوجاتا ہے ۔ یہی وہ چیز ہے جس کے متعلق قرآن مجید میں ارشا ہوتا ہے وَاِمَّا يَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰهِ اور اگر شیطان کی طرف سے تمہیں کوئی اکساہٹ محسوس ہو تو اللہ کی پناہ مانگو ( الاعراف 200 ۔ حم السجدہ 36 ) وَقُلْ رَّبِّ اَعُوْذُ بِكَ مِنْ هَمَزٰتِ الشَّيٰطِيْنِ کہو میرے پروردگار میں شیطانین کی اکساہٹوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں ( المومنون 97 ) اِنَّ الَّذِيْنَ اتَّقَوْا اِذَا مَسَّهُمْ طٰۗىِٕفٌ مِّنَ الشَّيْطٰنِ تَذَكَّرُوْا فَاِذَا هُمْ مُّبْصِرُوْنَ جو لوگ پرہیزگار ہیں ان کا حال تو یہ ہوتا ہے کہ کبھی شیطان کے اثر سے کوئی برا خیال انہیں چھو بھی جائے تو وہ فورا چونک جاتے ہیں اور پھر انہیں ( صحیح راستہ ) صاف نظر آنے لگتا ہے ( الاعراف 201 ) اور اسی بنا پر جو لوگ شیطان کے اس آخری حربے سے بچ نکلیں ان کے بارے میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے وَمَا يُلَقّٰىهَآ اِلَّا ذُوْ حَظٍّ عَظِيْمٍ یہ چیز بڑے نصیبے والے کے سوا کسی کو حاصل نہیں ہوتی ( حم السجدہ 35 ) اس سلسلے میں ایک بات اور بھی نگاہ میں رہنی چاہیے ۔ وہ یہ کہ انسان کے دل میں وسوسہ اندازی صرف باہر سے شیاطین جن و انس ہی نہیں کرتے بلکہ اندر سے کود انسان کا اپنا نفس بھی کرتا ہے ۔ اس کے اپنے غلط نظریات اس کی عقل کو گمراہ کرتے ہیں ۔ اس کی اپنی ناجائز اغراض و خواہشات اس کی قوت تمیز اور قوت ارادی اور قوت فیصلہ کو بد راہ کرتی ہیں ۔ اور باہر کے شیاطین ہی نہیں ، انسان کے اندر اس کے اپنے نفس کا شیطان بھی اس کو بہکاتا ہے ۔ یہی بات ہے جو قرآن میں ایک جگہ فرمائی گئی ہے کہ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهٖ نَفْسُهٗ ( ق ، 16 ) اور ہم اس کے اپنے نفس سے ابھرنے والے وسوسوں کو جانتے ہیں ۔ اسی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مشہور خطبہ مسنونہ میں فرمایا ہے نعوذ باللہ من شرور انفسنا ہم اللہ کی پناہ مانگتے ہیں اپنے نفس کی شرارتوں سے ۔